islamkingdomyoutube islamkingdomfacebook


زکاۃ، فوائد واحکام


13560
تفصیل
سب سے بڑا مالی فریضہ زکوۃ ہے۔ یہ اسلام کا تیسرا رکن ہے اور قرآن کریم میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوۃ کا بھی ذکر ہوا ہے۔ اس کی مشروعیت میں اللہ نے بڑی کامل حکمتیں رکھی ہیں۔ بندوں کا مال لینے کے لیے اس کی مشروعیت نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ ان کے مال کی پاکی اور فقراء ومحتاجوں کو دینے کے لے مشروع ہوئی ہے۔ تاکہ معاشرہ کے افراد میں محبت اور باہمی تعاون اور اجتماعی ذمہ داری کا احساس پروان چڑھے۔

إن الحمد لله، نحمده, ونستعينه, ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،

وقد قال اللہ تبارک وتعالی فی محکم تنزیلہ، أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم:

( خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا ) [التوبة: 103]

برادران اسلام! زکاۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن اور اسلامی فرائض وواجبات میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔ یہ ارکان اسلام میں ترتیب کے لحاظ سے تیسرا رکن ہے، نماز کے بعد ہی اس کا ذکر کیا گيا ہے۔ بلکہ قرآن کریم کے اندر تیس سے زائد مقامات پر نماز کے ساتھ زکوۃ کا ذکر ہے ۔ جو اس کی دینی اہمیت وعظمت، مقام ومرتبہ اور کثیر المنافع اور عظیم المقاصد ہونے کی دلیل ہے ۔

چنانچہ سورۂ توبہ کی آیت 103 جو آپ کے سامنے تلاوت کی گئی:

( خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ) [التوبة: 103]

“ آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجیے، جس کے ذریعے سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان کے لیے دعا کیجیے، بلا شبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ خوب سنتا اور جانتا ہے۔”

میں صدقہ یعنی زکوۃ کو تطہیر وتزکیہ یعنی مال اور نفس کی پاکیزگی کا سبب بتا یا گیا ہے ۔ زکوۃ کے لغوی معنی پاکیزگی اور بڑھوتری ہیں ۔ یعنی زکوۃ ادا کرنے سے مال اور انسان کا نفس پاک ہوتا ہے، صفت بخل سے انسان محفوظ رہتا ہے اور دل میں انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ نیز اللہ تعالی ٰ کا فریضہ سمجھ کر شرعی ضابطہ کے مطابق اس کی ادائیگی مال میں برکت اور اضافہ کا باعث ہے۔ اس کو صدقہ بھی کہا جاتا ہے یعنی صدقۂ واجبہ (لازمی اور فرض صدقہ) کیوں کہ یہ ایک مسلمان کے صادق الایمان اور محب خیر ہونے کی بھی علامت ہے۔ اسے مال نہیں بلکہ ایمان اور ثواب محبوب ہے۔ اللہ تعالی ٰ کی جنت جو متقیوں کا دائمی ٹھکانہ ہے، مومن کا محبوب ومطلوب ہے جس کے لیے وہ بدنی عبادت نماز اور مالی عبادت زکوۃ کا بطور خاص اہتمام کرتا ہے۔ زکاۃکی ادائیگی، اللہ تعالیٰ کی ایک اہم نعمت، نعمت مال پر اس کا شکرانہ ہے اور اللہ تعالی ٰ شکر گذاروں کو مزید انعام واکرام سے نوازتا ہے جبکہ ناشکروں کو نعمتوں سے محروم کر دیتا ہے ۔ اس سلسلہ میں متعدد آیات وارد ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی ٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لیے قرآن مجید میں ایک مقام پر یوں بشارت آئی ہے:

( وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ) [سبأ: 39] “ تم جو کچھ بھی اللہ کی راه میں خرچ کرو گے اللہ اس کا (پورا پورا) بدلہ دے گا اور وه سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔”

اس معنی ومفہوم کی آیات اور بھی کئی مقامات پر موجود ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد گرامی ہے:

“ما من یوم یصبح العباد فیہ إلا ملکان ینزلان فیقول أحدھما: اللھم أعط منفقا خلفا ویقول الآخر: اللھم أعط ممسکا تلفا” (متفق علیہ عن أبی ھریرۃ)

“ہر روزصبح کے وقت آسمان سے دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ایک کہتا ہے:اے اللہ!خرچ کرنے والے کو بہتر عوض عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے: اے اللہ! بخیل اور کنجوس کے مال کو تلف (برباد ) کر دے۔ زکوۃ کی ادائیگی کا ایک بڑا فائدہ فقراء ومساکین کی حاجت برآری اور ان کی ہمدردی وغم خواری ہے۔ گویا غریب اور محتاج مسلمانوں کی ضروریات کی تکمیل اور ان کی کفالت کا بہت اہم اور مضبوط ذریعہ زکاۃ ہے۔ اگر نظم وضبط کے ساتھ زکوۃ جمع کی جائے اورمستحقین تک اسے پہنچایا جائے تو مسلم معاشرہ میں کسی فقیر ومسکین اور دیگر مستحقینِ زکوۃ کو در در بھٹکنے کی ضرورت نہیں پڑےگی۔ کیوں کہ حاجت مندوں کی حاجت برآری اور ان سے فقروفاقہ کو دور کرنے کے لیے ہی اسلام نے صاحب نصاب مالدار پر زکوۃ فرض کی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد فقراء ومساکین کی ضرورتوں کی تکمیل ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

“إن اللہ افترض علیھم صدقۃ تؤخذ من أغنیاءھم وترد علی فقراء ھم” الحدیث (رواہ الشیخان عن ابن عباس)

“نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو جب یمن کامعلم بنا کر بھیجا تو انہیں ضروری ہدایات فرمائیں، ان ہی میں ایک بات یہ بھی فرمائی کہ جب اہل یمن اللہ کی توحید کو مان لیں اور نماز قائم کرنے لگیں تو انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالی ٰ نے ان پر صدقہ (یعنی زکوۃ) فرض کیا ہےجو ان کے مالداروں سے لی جاتی ہے اور ان کے فقراء پر لوٹادی جاتی ہے۔ گویا زکوۃ کا فائدہ مسلم معاشرہ کے فقراء ومساکین کو ہی ہوتا ہے۔ اور اس طرح ان کی غریبی اور محتاجی دور ہوجاتی ہے۔ پھر ان کے دلوں میں مالداروں کے تئیں حقد وحسد کے جذبات نہیں پائے جاتے۔ بلکہ مزید مالداری اور فارغ البالی کی دل سے دعائيں نکلتی ہیں۔ اور یوں پورا معاشرہ، کیا امیر کیا غریب، محبت وغم خواری کے ایک دھاگے میں پرویا ہوا نظر آتا ہے۔ زکوۃ کے علاوہ صدقات فطر اور دیگر نفلی صدقات وعطیات اس پر مستزاد ہیں۔ حدیث ابن عباس میں اور اس طرح مصارف زکوۃ متعین کرنے والی سورۂ التوبہ کی آیت 60 میں فقراء اور دوسرے مساکین کو بیان کیا گيا ہے۔ کیوں کہ ان کا حق دیگر حقوق ومصارف کے مقابلہ میں مقدم ہے۔

دینی بھائیو!زکوۃ کی عدم ادائیگی سنگین عذاب اور ہلاکت وبربادی کاموجب ہے۔ ایک طرف جو فوائد ومصالح ادائیگی زکوۃ پر مرتب ہوتے ہیں ان سے محرومی ہوتی ہے۔ دوسری طرف مال ہلاکت وبربادی کے خطرے سے دو چار ہوتا ہے۔ چوری، ڈاکہ، آتش زنی، لوٹ مار، خسارہ محتاجی، آفات جو پھلوں اور پیدوار کو پہنچتی ہیں اور قحط سالی وغیرہ، زکوۃ ادا نہ کرنے کی صورت میں جلد لاحق ہونے والی تباہیوں اور سزاؤں کی بعض صورتیں ہیں جبکہ عذاب اُخروی تو اور بھی بڑاسنگین اور دردناک ہے۔

اللہ تعالی ٰ کا ارشاد ہے:

(وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ٣٤ يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ ) [التوبة:34 - 35]

“اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راه میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزه چکھو۔”

جس مال پر زکوۃ واجب ہو اور اس کی زکوۃ نہ دی جائے وہ کنز ہے۔ اور اس کا دردناک انجام آپ نے آیت کریمہ کے حوالہ سے ملاحظہ کیا ۔ اگر زکوۃ صحیح طریقہ پر دے دی جائے تو مال، کنز نہیں کہلاتا، چاہے وہ زیر زمین مدفون کیوں نہ ہو، یا کروڑوں میں کیوں نہ ہو ۔ کنز کرکے مال رکھنے والوں کے سلسلہ میں آيت سے ملتی جلتی ایک حدیث ملاحظہ کیجئے۔

صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

“ما من صاحب ذھب ولا فضۃ لا یؤدی حقھا إلا إذا کان یوم القیامۃ صفحت لہ صفائح من نار” ۔۔۔ إلی آخر الحدیث

“جو بھی سونے اور چاندی والا اپنے سونے اور چاندی کی زکوۃ (بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے)نہیں دیتا، تو قیامت کے دن اس کے سونے اور چاندی کی تختیاں بنا کر جہنم میں انہیں تپا کر ان سے اس کے پہلو، پیشانی اور پیٹھ (پشت)کو داغا جائےگا۔ جب جب تختیاں سردہوں گی انہیں گرم کیاجائے گا اور وہ بھی ایسا گرم کہ تختیوں پر جہنم کی آگ رکھی جائےگی تاکہ تختیاں اور زیادہ تپ جائيں، کیوں کہ جس چیز پر آگ رکھی جاتی ہے وہ چیز زیادہ تپ جاتی ہے۔ان گرم تختیوں سے مسلسل عذاب دیا جاتا رہےگا، ایک ایسے دن میں جو پچاس ہزار سال کا ہوگا، یہاں تک کہ اللہ تعالی ٰ بندوں کے درمیان فیصلہ فرمائے، تو وہ اپنا راستہ دیکھے کہ جنت کی طرف ہے یاجہنم کی طرف؟

مال میں بخل سے کام لینے والوں کے حق میں اللہ تعالی ٰ ارشاد فرماتا ہے:

( وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ) [آل عمران: 180]

”جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وه اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وه ان کے لئے نہایت بدتر ہے، عنقریب قیامت والے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے۔”

آیت کریمہ کی تفسیر میں ایک صحیح حدیث بھی وارد ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“من آتاہ اللہ مالا فلم یؤد زکاتہ مثل لہ شجاعا أقرع لہ زبیبتان یطوقہ یوم القیامۃ ثم یأخذ بلھزمتیہ ثم یقول أنا مالک أنا کنزک”

“جسے اللہ تعالی ٰ نے مال دے رکھا ہے اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہیں کرتا، تو وہ مال اس کے لیے نہایت خطرناک ڈراؤنے، زہریلے، گنجے سانپ کی صورت میں تبدیل کر دیا جائےگا، جس پر دو سیاہ نقطے ہوں گے (جو خطرناکی کی علامت ہوں گے) یا اس کے منہ سے زہریلی جھاگ نکل رہی ہوگی، وہ اس کے گلے میں قیامت کے دن مثل طوق ڈال دیا جائےگا، پھر وہ اس کے دونوں گلپھڑوں کو پکڑلےگا اور کہےگا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا کنز (خزانہ ہوں )- والعیاذ باللہ-!اتنا خطر ناک عذاب، وہ بھی گھنٹہ دو گھنٹہ کا نہیں پورے پچاس ہزار سال تک کا۔

حقیقت یہ ہے کہ چند آیات واحادیث زکوۃ نہ دینے والوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کا فی ہیں۔

وجوب زکوۃ کا منکر اسلام کی نظر میں کافر ہے، توبہ کرتا ہےتو ٹھیک، ورنہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ اور اگر زکوۃ کو فرض جانتا ہے لیکن بخل کے سبب ادا نہیں کرتا تو اسے نصیحت کی جائے۔ اگر قبول کرے تو بہت بہتر ورنہ مسلم حکمراں کا فرض ہے کہ ا س سے بزور طاقت زکوۃ وصول کرے اور اگر پھر بھی نہیں دیتا تو اس سے جنگ کی جائے۔ یہاں تک کہ زکاۃ ادا کرنے لگ جائے۔

بزرگو اور دوستو!جن مالوں میں زکوۃ واجب ہوتی ہے، وہ چار طرح کے ہیں؛

پہلی قسم:نقدی اموال، یعنی سونے چاندی اور ان کے قائم مقام رائج سکے اور کرنسیا ں، جن سےلوگ آپس میں کاروبار اور لین دین کرتے ہیں۔ خواہ وہ کسی نام سے موسوم ہوں۔ جیسے روپے، ریال، درہم، دینار، ڈالر اور پونڈ وغیرہ۔ اگر سونا، چاندی یا کرنسی مقررہ نصاب کو پہنچ جائے تو نصاب اور اس سے زائد کے اندر سال میں ایک مرتبہ ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کرنا واجب ہے ۔ چاہے نقد مال، تجارت کے لیے رکھا گيا ہو یا خرچ کےلیے، شادی، مکان اور گاڑی کی خریداری کےلیے یا کسی دوسری ضرورت کے لیے ہو۔ خواہ یہ مال جس پر سال گذرگيا ہے اور نصاب کو بھی پہنچ گیا ہے، کسی بڑے شخص کی ملکیت ہویا کم سن کی یا کسی دیوانہ یا پاگل کی یا کسی یتیم کی۔ زکوۃ چونکہ مال میں واجب ہے اس لیے بڑے چھوٹے، مرد، عورت ، دیوانہ، فرزانہ اور یتیم وغیر یتیم میں کوئی فرق نہیں۔

تنخواہ پانے والا شخص جو ہر ماہ کچھ نہ کچھ مال بچاتا ہے اس کےلیے بہتر ہے کہ سال میں کوئی ایک مہینہ مثلاً ماہ رمضان، زکوۃ کی ادائیگی کے لیے متعین کر لے اور جو مال بھی اس وقت تک جمع ہو اس کی اکٹھی طور پر زکوۃ نکال دے بشرطیکہ باقی ماندہ اور محفوظ مال نصاب کو پہنچ گيا ہو۔ کیوں کہ ہر مہینہ کا حساب رکھنا ایک مشکل امر ہے۔ اگر مالداروں کے مال دوسروں کے ذمہ قرض ہوں اور قرض لینے والے بھی خوش حال لوگ ہوں اور جب قرض دہندہ چاہے ان سے مال لے سکتا ہوتو زکوۃ کی ادائیگی کے وقت قرض پر دی گئی رقم کو موجودہ مال کے ساتھ شامل کرکے زکوۃ ادا کرے، اور اگر نا دہندہ یا ٹال مٹول کرنے والوں کے ذمہ قرض ہوتو ہر سال اس کی زکوۃنہ دے۔ بلکہ جب رقم آ جائے تو ایک سال کی زکوۃ ادا کردے۔ اور اگر مال والوں پر دوسروں کا قر ض ہو اور زکوۃ کی ادائیگی کاوقت آجا اور اس نے قرضے ادا نہ کیے ہوں تو پورے موجودہ مال کی زکوۃ دینی ہوگی۔ قرض زکوۃ کو ساقط نہیں کرتا۔ قرض کی ادائیگی حولان حول سے قبل کردے تو باقی ماندہ مال میں ہی زکوۃ واجب ہوگی۔ سونے کا نصاب 20 مثقال یعنی 85 یا 90 گرام سونا (اہل علم کا مقدار میں اختلا ف ہے ۔ 90گرام کاقول مفتی بہ ہے ) اور چاندی کا نصاب پانچ اوقیہ یعنی 200 درہم تقریبا چھ سو گرام چاندی ۔ اور کرنسی میں سونے یا چاندی جہاں کی کرنسی کا جو ویلیو ہو اس کی قیمت کے برابر کرنسی نوٹ، فقراء کی رعایت کرتے ہو چاندی کانصاب اختیار کرنا بہتر معلوم ہوتا ہے۔ سونے اور چاندي کے زیورات جو استعمال کےلیے بنوا گئے ہوں ان میں جب وہ نصاب کو پہنچ جائيں اہل علم کے راجح قول کے مطابق صحیح دلیلوں کی روشنی میں زکوۃ واجب نہیں ہے، مگر یہ کہ وہ تجارت کے لیے ہوں ۔

دوسری قسم:اموال تجارت کی ہے۔ یعنی جائز اموال تجارت، خواہ تجارت کپڑے کی ہو یا گاڑیوں کی یا اشیاء خوردنی اور دواؤں کی یا مختلف قسم کے میٹریلس کی، یا زمین کی خرید وفروخت ہو، سال میں ایک مرتبہ تجارتی اشیاء پر بھی زکوۃ واجب ہے اور بوقت ادائیگی زکوۃ سامان تجارت کی قیمت کا اعتبار ہوگا اور قیمت پر ڈھائی فیصدی زکوۃ ادا کرنی ہو گی۔ اجرت پر دینے کے لیے بنا گئے مکانوں اور دکانوں یا گا ڑیوں سے حاصل ہونے والی اجرتوں پر سال گذر جانے کے بعد زکوۃ واجب ہوگی۔ لیکن اگر زمین یا مکان خرید وفروخت کے لیے ہو تو اس کی قیمت پر زکوۃ واجب ہے ۔ مکان ، دکان، گا ڑی، کارخانہ، اور اس میں لگائی گئی مشینوں پر زکوۃ نہیں ہے ۔

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لاشريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله،

دینی بھائیو! مال کی تیسری قسم جس میں زکوۃ واجب ہے، مویشیوں کی ہے۔ اونٹ، گائے اور بکری کے نصاب اور زکوۃ کی مقدار کی تفصیلات کتب احادیث وفقہ میں درج ہیں۔ حاجت مند حضرات اہل علم سے دریا فت کریں ۔

چوتھی قسم: غلہ اور پھلوں کی ہے۔ اس کا نصاب یعنی وہ مقدار جس میں زکوۃ واجب ہوتی ہے پانچ وسق ہے ۔ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع کا وزن بعض علماء کے نزدیک ڈھائی کیلو اور بعض کے نزدیک تین کیلو گرام ہے ۔ اس طرح تین سو صاع 750 کیلو گرام یا 900 کیلو گرام ہوا ۔ رسدار پھلوں اور سبزیوں کی آمدنی پر سال گذر نے کے بعد زکوۃ ہوتی ہے ۔ لیکن کھجور منقی اور مختلف غلہ مثلا دھان ( چاول )، گندم وغیرہ جب پانچ وسق کو پہنچ جائيں تو جب جب پیداوار ہوگی دسواں یا بیسواں حصہ زکوۃ دینا ہوگی۔ اگر سال میں دو یا تین فصل تیار ہوں تو ہر مرتبہ زکوۃ واجب ہوگی۔ اور اگر ایک ہی فصل پیدا ہوتو ایک ہی مرتبہ زکوۃ ہے۔ آسمان کی بارش سے پیداوار ہونے پر دسواں حصہ اور خود آبپاشی کرنے پر بیسواں حصہ زکوۃ ہے۔ اور اگردونوں صورتیں پائی جائيں تو غالب صورت کا اعتبار ہوگا۔ بقیہ تفصیلات علماء سے دریا فت کی جائيں ۔ خطبۂ جمعہ تفاصیل کا متحمل نہیں ۔

مسلمانو! مصارف زکوۃ یعنی وہ مقامات جہاں زکوۃ کا مال خرچ کیا جاتا ہے کل آٹھ ہیں جن کا ذکر سورۂ توبہ کی آیت 60میں ہے ۔ ارشاد باری ہے ( إنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ) [التوبة: 60]

“صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور ان کے لیے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راه میں اور راہرو مسافروں کے لیے، فرض ہے اللہ کی طرف سے، اور اللہ علم وحکمت والا ہے۔”

پہلااور دوسرا مصرف:فقراء اور مساکین ہیں، یعنی جن کے پاس اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے نصف یا اس سے زائد موجود ہو ، تو باقی مہینوں کے اخراجات زکوۃ سے پورے کردیے جائیں گے۔

تیسرا مصرف: عاملین ہیں یعنی وہ نمائندے جنہیں سلطنت کا حاکم مالداروں سے زکوۃ وصول کرنے، اس کی حفاظت کرنے اور مستحقین میں خرچ کرنے کے لیے اپنے نمائندگان کی حیثیت سے مقرر کردے تو انہیں بھی ان کے عملوں کے لحاظ سے زکوۃ کا مال دیا جائےگا (بشرطیکہ وہ تنخواہ دار نہ ہوں )چاہے وہ بذات خود مالدار کیوں نہ ہوں ۔

چوتھا مصرف: مؤلفۃ القلوب کاہےیعنی وہ رؤساء قبائل جن کے ایمان میں قوت نہ ہو تو انہیں ایمان پر ثابت قدم رکھنے کے لیے اور اس لیے بھی کہ وہ دوسروں کو ایمان کی دعوت دیں اور بہتر مثال بنیں انہیں زکوۃ دی جائے ۔ لیکن عام آدمی جو قبیلہ کا سردار نہ ہو مگر اس کے ایمان میں ضعف ہو تو اس کی ایمانی قوت کی خاطر زکوۃ دینے کے سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے ۔

پانچواں مصرف:گردن آزاد کرانا ہے ۔ غلام خرید کرآزاد کرنا یا مکاتب غلام جس نے اپنی آزادی کے لیے اپنے آقاسے ایک مقرر رقم کی ادائیگی پر اتفاق کرلیا ہو اس کو کتابت کی رقم دینا، یا آج کے دور میں مسلمان قیدیوں کو رہا کرانا زکوۃ کا ایک مصرف ہے۔

چھٹامصرف: قرضداروں کے قرضوں کی ادائیگی ہے۔ قرض دار سے کوئی شخص قرض زکوۃ کی نیت سے ساقط کر دے تو درست نہیں بلکہ مال دیتے وقت ادائیگی زکوۃ کی نیت ضروری ہے، کیوں کہ زکوۃ عبادت ہے جو بغیر نیت کےصحیح نہیں ہوتی ۔

ساتواں مصرف: فی سبیل اللہ ہے۔ یعنی مجاہد ین کو اتنی رقم دینا جو ان کے لیے کا فی ہو اور جہاد کے لیےآلات وغیرہ خریدنا ۔ اس میں علم شرعی بھی داخل ہے طالب علم شریعت کو اگر وہ محتاج ہو، زکوۃ سے کتب وغیرہ کی خریداری کے لیے دینا جائز ہے۔

آٹھواں مصرف:مسافر جس کا دوران سفر زادراہ ختم ہوگيا ہو اور وہ اپنے گھر تک لوٹ نہ سکتا ہو تو اس کو حسب ضرورت زکوۃ دینا جائز ہے۔

یہی وہ مصارف زکوۃ یا مستحقین زکوۃ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مجید میں ذکر فرمایا ہے۔ زکاۃ اس کی جانب سے ایک اہم فریضہ ہے جو کمال علم وحکمت کے نتیجہ میں اس کی طرف سے صادر ہواہے۔ لہذا زکوۃ مساجد کی تعمیر اور راستوں کی اصلاح ودرستگی وغیر جیسے امور میں خرچ نہیں کی جاسکتی ۔ اللہ تعالیٰ نے بطور حصر مصارف زکاۃ کا ذکر فرمایا ہے۔ لہذا جو مصرف آیت کریمہ میں موجود نہیں وہ غیر شرعی ہے اور اس کے لیے زکوۃ کا استعمال ناجائز ہے ۔

زکوۃ نکالنے میں کراہت محسوس کرنا منافقین کی علامت ہے جیسا کہ اللہ تعالی ٰ کا ارشاد ہے :

( وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ ) [التوبة: 54]

"اور بڑی کاہلی سے ہی نماز کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں۔"

بھائیو:تمام دینی امور میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور خاص کر زکوۃ کی ادائیگی کے سلسلہ میں اللہ کے احکام وفرامین پر عمل پیرارہو ۔ فرض زکوۃ کے علاوہ بکثرت نفلی صدقات بھی دیا کرو، صدقہ خیرات کرنے سے رب تعالی کا غضب ٹھنڈاہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ تمام حضرات کو اپنی رضا وخوشنودی کے کاموں کی زیادہ سے زیادہ توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین ۔

آئیے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ وسلام بھیجیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

) إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 56 ) [الأحزاب: 56]

”اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔”