islamkingdomyoutube islamkingdomfacebook

بدعات


8063
تفصیل
اللہ تعالی ٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری دنیا کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ نے اپنے رب کے پیغام کو پہنچادیا اور اپنے دین کی امانت ادا کردی اور امت کو ایک ایسی روشن شاہراہ پر چھوڑ گئےجس کی رات بھی دن کی طرح ہے۔ اس وقت تک آپ کی کی وفات نہیں ہوئی، جب تک دین کا اتمام نہیں ہو گیا اور رسالت پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ گئی۔ آپ نے اپنے بعد کسی کے لیے یہ گنجائش نہیں چھوڑی کہ وہ دین میں کوئی کمی بیشی کرے بلکہ آپ نے اس سے ڈرایا اور ایسے عمل کو قابل قبول نہیں ٹہرایا جو آپ کے طریقے اور آپ کی سنت کے خلاف ہو۔ لہذا تمام تر خیر آپ کے طریقے کی اتباع میں ہے۔ اور تمام تر شر آپ کے طریقے سے دوری میں ہے ۔

إن الحمد لله، نحمده، ونستعينه، ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادى له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمداً عبده ورسوله، أما بعد!

محترم اسلامی بھائیو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دنیا کفر وضلالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہی تھی۔ ہر طرف خواہشات کا دور دورہ تھا۔ لوگ طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا تھے۔ ہر طرف لوٹ مار، چوری، ڈاکہ زنی، شراب نوشی اور حرام کاری کابازار گرم تھا۔ دنیا والوں کی اس حالتِ زار پر اللہ تعالیٰ کو رحم آیا۔ اس نے لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق دے کر مبعوث فرمایا۔ اور اپنی آخری شریعت کو آپ پر تمام فرمایا۔ آپ نے لوگوں کو اللہ کے دین کی دعوت دی۔ انہیں کفر وضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر دین حق کی روشن شاہراہ پر گامزن کیا۔ اللہ کا کلمہ بلند کرنے اور دین اسلام کو غالب کرنے کے لیے آپ نے ہر طرح کی تکلیفیں جھیلیں۔ بالآخر اللہ نے آپ کے ذریعہ اپنے دین کو غالب فرمایا۔ آپ نے دین حق کی امانت لوگوں کو پہنچا نے، ان کی خیر خواہی چاہنے اور فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور اس کا پورا حق ادا کیا۔ اور امت کو ایک ایسی شاہراہ پر چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ آپ کو اپنی حیاتِ مبارکہ میں اس بات کا اندیشہ تھا کہ لوگ پھر اس دین کی روشن شاہراہ کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی میں نہ لگ جائیں، اور آپ کے طریقے کو چھوڑ کر اپنے نفس کی، اور اپنے آباءواجداد کی پیروی نہ کرنے لگ جائیں،اس لیے آپ نے لوگوں کو آنے والے فتنوں سے بھی آگاہ وخبردار کر دیا۔ سنتوں کو چھوڑنے اور دین میں بدعات وخرافات کو ایجاد کرنے سے لوگوں کو ڈرایا۔ اور ان خواہشات کی پیروی کرنے والوں سے جنہوں نے عصر نبوت کے بعد امت کو مختلف گروہوں اور فرقوں میں بانٹ دیا ہے، ہوشیار اور خبردار رہنے کی تلقین فرمائی۔

ابھی آپ کی وفات پر زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ عقل پرستوں اور خواہشات نفس کے بندوں نے پرپرزے نکالنے شروع کردئیے۔ خوارج اور اہل تشیع کا ظہور ہوا۔ اور معتزلہ ومرجئہ وغیرہ مختلف ناموں سے بہت سارے گمراہ فرقے امت میں پیدا ہو گئے۔ آہستہ آہستہ لوگ سنت کی روش کو چھوڑ کر خواہشات کی پیروی میں لگ گئے۔ شریعت کے بجائے اپنی عقلوں سے فیصلے ہونے لگے، اور دین میں نئی نئی بد عتیں ایجاد ہونے لگیں ۔ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو قرآن وحدیث کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی بڑی تاکید فرمائی تھی ۔ آپ نے اپنی وفات سے قبل فرمایا تھا:

“ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ماتمسکتم بھما؛ کتاب اللہ وسنتی”

“میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے، ہرگز گمراہ نہ ہوگے؛ ایک اللہ کی کتاب ہے، اور دوسری میری سنت ہے۔”

قرآن کریم میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطا عت وفر ماں برداری پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ بےشمارآیتوں میں اس کی تاکید آئی ہے۔ قرآن مجید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اللہ سے محبت کی علامت اور نشانی بتا ئی ہے۔ارشاد باری ہے:

( قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ) [آل عمران: 31]

”کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرےگا اور تمہارے گناه معاف فرما دےگا۔”

ایک جگہ ارشاد ہے:

(وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ) [النور: 54]

“اگر تم ان کی اطاعت کروگے راہ یاب ہوگے۔”

ایک اور جگہ ارشاد ہے :

(وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ) [الحشر: 7]

“اور رسول تمہیں جو کچھ دیں لے لو، اور جس سے روکیں رک جاؤ۔”

اگر کوئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے اعراض کرتا ہے، تو اس کے لیے خواہشات کی اتباع کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں بچتا ہے۔

ارشاد باری ہے:

( فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنَ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) [القصص: 50]

”پھر اگر یہ تیری نہ مانیں تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہےجو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالی ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔”

اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے اور آپ کی سنت سے اعراض کرے، وہ اپنے نفس اور اپنی خواہشات کا بندہ ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن نے بڑی زبر دست دھمکی دی ہے۔ارشاد باری ہے:

( وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى ) [طه: 124]

”اور (ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرےگا اس کی زندگی تنگی میں رہےگی، اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے۔”

خواہشات کے بندوں اور بدعات کے خوگر لوگوں کا ہمیشہ یہی حال رہتا ہے۔ وہ ہمیشہ کڑھن، تنگی اور حرج میں مبتلا رہتے ہیں۔ کبھی انہیں اطمینان وسکون اور شرح صدر میسر نہیں ہوتا۔ ہدایت کا نور صرف اتباع سے حاصل ہوتا ہے۔ اتباع اور اطاعت کی راہ چھوڑ کر گمراہی اور بدبختی کےسوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ارشاد باری ہے:

(فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى ) [طه: 123]

”جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وه بہکے گا نہ بدبختی میں پڑے گا۔”

اس کامطلب یہ ہوا کہ ہدا یت سے منہ موڑ نے والا گمراہ اور بد بخت ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعات ومحدثات (دین میں نئی چیزوں ) کی بڑی مذمت فرمائی ہے۔

آپ کا ارشاد ہے:

“من أحدث فی أمرنا ھذا، ما لیس منہ، فھورد” (بخاری ومسلم)

“ جو ہمارے اس دین میں ایسی باتیں ایجاد کرےگا، جو اس میں سے نہیں ہیں، تو وہ مردوداور ناقابل قبول ہوں گی۔”

اورمسلم کی ایک روایت میں ہے:

“من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھو رد”

“جو کوئی ایسا کا م کرےگا، جو ہمارے حکم کے مطابق نہ ہوگا، تو وہ ناقابل قبول ہوگا۔”

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:

“کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا خطب إحمرت عیناہ، وعلا صوتہ، واشتد غضبہ، کأنہ منذر جیش، یقول: صبّحکم، ومسّاکم، ویقول: بعثتأنا والساعۃ، کھاتین، ویقرنبین أصبعیہ؛ السبابۃ، والوسطیٰ، ویقول: أما بعد! فإن خیر الحدیث کتاب اللہ، وخیر الھدی، ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ” (مسلم)

“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے، تو آپ کی آنکھیں سرخ اور آواز بلند ہوجاتی۔ اور آپ کا غضب شدید ہو جاتا۔ گویا کہ آپ دشمن کو کسی لشکر سے ڈرارہے ہیں۔ اور آپ فرماتے:میں اور قیامت دونوں ایسے بھیجے گئے ہیں، جیسے یہ دونوں انگلیاں ہیں۔ اور آپ اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی دونوں کو ایک دوسرے سے ملا لیتے۔ یعنی جس طرح یہ دونوں انگلیاں متصل ہیں اور درمیان میں کوئی فاصلہ نہیں۔ اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کسی نبی کا فاصلہ نہیں۔ اور فرماتے: یقیناً بہترین بات، اللہ کی کتاب ہے، اور بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔اور بدترین کام دین میں محدثات (نئے پیدا کردہ امور) ہیں اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”

نیز مسلم کی ایک روایت میں ہے:

“من رغب عن سنتی فلیس منی”

“جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ ہم(مسلمانوں) میں سے نہیں ہے۔”

طبرانی کی ایک روایت میں جس کی سند حسن ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد وارد ہے:

“إن اللہ حجب التوبۃ عن کل صاحب بدعۃ حتی یدع بدعتہ”

“اللہ تعالیٰ نے ہر بدعتی سے توبہ کو آڑ میں کرلیا ہے۔ یعنی اسے توبہ سے محروم رکھا ہے۔ جب تک کہ وہ اپنی بدعت کو چھوڑ نہ دے۔”

کلمۂ طیبہ کا دوسراحصہ؛ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےاللہ کے رسول ہونے کی گواہی کا تقاضا یہی ہے کہ آپ کی مکمل اتبا ع کی جائے۔ اور آپ کی سنتوں کی پوری پابندی کی جائے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول ماننے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ آپ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے انہیں کیا جائے اور جن باتوں کی خبر دی ہے ان کی دل سے تصدیق کی جائے اور جن چیزوں سے آپ نے روکا ہے ان سے بچا جائے۔ اور اللہ کی عبادت انہی طریقوں سے کی جائے جنہیں آپ نے مشروع قرار دیا ہے۔ ہمارے لیے کسی بھی طرح سے یہ جائز نہیں کہ ہم اللہ سے تقرّب ایسے طریقوں اور ایسی عبادتوں کے ذریعہ ڈھونڈیں، جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے مشروع نہ کیا ہو۔

ارشاد باری ہے:

(أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ ) [الشورى: 21]

"کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔"

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ایسے اقوال کی اتبا ع جائز نہیں جو قرآن وسنت کے مخالف ہوں۔ ان کا کہنے والا خواہ کوئی بھی ہو۔

امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہرشحص کی بات مانی بھی جا سکتی ہے اور اسے ٹھکرائی بھی جا سکتی ہے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے۔

اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

(أجمع العلماء علی أن من استبانت لہ سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، لم یکن لہ أن یدعھا لقول أحد)

“علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت جس پر واضح ہو جائے اس کے لیے کسی کی بات پر سنت کو چھوڑ نا جا ئز نہیں۔

امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو اسناد اور حدیث کی صحت سے واقف ہونے کے باوجود، حدیث رسول کو چھوڑ کر سفیان وغیرہ کی رائے کو اختیار کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے:

(فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ) [النور: 63]

”سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آ پڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ آپہنچے۔”

آپ کو معلوم ہے کہ فتنہ کیا ہے؟ فتنے سے مراد شرک ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو آپ کی مخالفت کرےگا، خدشہ ہے کہ وہ شرک میں گرفتار ہو کر ہلاک وبرباد نہ ہو جائے۔ اس لیے میرے بھائیو! اسلام جس طرح اللہ کی اطاعت وفرماں برداری کا نام ہے، اسی طرح اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا بھی نام ہے۔ جب کسی صحیح سند سے آپ کی کوئی بات ثابت ہو جائے تو اس کا ماننا واجب ہے۔

ارشادباری ہے:( وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا ) [الأحزاب: 36]

”اور (دیکھو) کسی مومن مرد و عورت کو اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ آ جانے کے بعد اپنے کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا، (یاد رکھو) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرےگا وه صریح گمراہی میں پڑےگا۔”

سنت کی خلاف ورزی دین میں تفرقہ پیدا کرنا ہے۔

ارشاد باری ہے:

(وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) [الأنعام: 153]

”اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے سو اس راه پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وه راہیں تم کو اللہ کی راه سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو اللہ تعالیٰ نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیزگاری اختیار کرو۔”

کتاب وسنت سے انحراف وتجاوز اللہ اور رسول سے سرکشی کے مترادف ہے۔

ارشاد باری ہے:

( فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَكَ وَلَا تَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ) [هود: 112]

"پس آپ جمے رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وه لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کر چکے ہیں، خبردار تم حد سے نہ بڑھنا۔"

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے:

“إن أحسن الحدیث کتاب اللہ، وخیرالھدی ھدی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ”

“سب سے اچھی بات اللہ کی کتاب ہے اور سب سے اچھا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”

اس حدیث میں ہر بد عت کو گمراہی کہا گیا ہے۔ کیونکہ بدعتی کتاب وسنت کی دلیلوں کو چھوڑ کر اپنی خواہشات اور من چاہی چیزوں کو دلیل بنا لیتا ہے، اور اس کی پیروی کرنے لگتا ہے۔

ابن ماجشون نے امام مالک سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں:

“ جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی اور اس کو ایک اچھا کام بھی سمجھا، تو گویا اس کا خیال یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت میں خیانت کی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ) [المائدة: 3]

”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا۔”

لہذا جو اس دن دین نہیں تھا آج بھی دین نہیں ہو سکتا۔ جہاں بد عات کا چلن ہوتا ہے، وہاں سے سنتیں رخصت ہو جایا کرتی ہیں۔ اور وہ لوگ صحیح دین سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“ماابتدع قوم بد‏عۃ إلا نزع اللہ عنھم من السنۃ مثلھا”

“جب بھی کسی قوم نے کوئی بدعت ایجاد کی تو اللہ تعالیٰ نےاس قوم سے اسی کے مثل سنت چھین لی۔”

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قوموں میں بدعتوں کے فروغ سے سنتیں اٹھا لی جاتی ہیں۔ اور وہ لوگ انہی بدعات کے خوگر ہو جاتے ہیں اور انہی کو دین سمجھنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ آہستہ آہستہ صحیح دین سے محروم کردیئے جاتے ہیں۔

دارمی کی ایک روایت میں ہے:

“ثم لایعیدھا إلی یوم القیامۃ”

“ پھر قیا مت تک اللہ تعالیٰ ان سنتوں کو ان میں واپس نہیں لاتا۔”

اہل بدعات کی سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض کوثر سے دھتکار دیئے جائیں گے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

“أنا فرطکم علی الحوض، لیُرفعن إلی رجال منکم، حتی إذا أھویت لأناولھم اختلجوا دونی، فأقول: أی رب! أصحابی، یقول: لا تدری ما أحدثوا بعدک؟”

“میں حوض کوثر پر ہوں گا، اور تم میں سے کچھ لوگ میری طرف آئیں گے۔ جب میں انہیں حوض کا پانی دینے کے لیے جھکوں گا، تو انہیں میرے سامنے سے کھینچ کر بھگا دیا جائےگا۔ میں کہوں گا: اے میرے رب! یہ تو میری امت کے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائےگا: تمہیں معلوم نہیں کہ ان لوگوں نے تمہارے اس دین میں کیاکیا باتیں ایجاد کرلی تھیں۔”

ایک روایت میں ہے، اس پر میں کہوں گا: “سحقا سحقا لمن غیر بعدی”

“دوری ہو، دوری ہو، ان لوگوں کے لیے جنہوں نے دین میں تبدیلیاں کردی تھیں۔”

اس لیے میرے بھا ئیو! کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامے رہو اور بدعات ومحدثات سے بچو۔ یاد رکھو دین وہی ہے جو کتاب وسنت میں ہے۔ اس سے دوری دین سے انحراف، ہلاکت اوربربادی کے سوا کچھ نہیں۔ اللہ تعالی ہمیں کتاب وسنت پر مضبوطی سے قائم رکھے اور بدعات ومحدثات سے بچائے رکھے۔

أقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین فاستغفروہ إنہ ھو الغفور الرحیم۔

الحمد للہ، وکفی وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ۔ أما بعد !

آیئے! میں آپ کو بتاؤں کہ بدعات وخرافات میں مبتلا کرنے والی چیزیں کیا ہیں۔

پہلی چیز، دین سے جہالت اور لا علمی ہے۔ اگر آدمی صحیح دین کو جاننے کی کوشش کرے اور قرآن مجید اورصحیح احادیث کومعانی ومطالب کے ساتھ پڑھتا رہے اور ثقہ اور معتبر علماء کے دروس میں بیٹھے، تو اس کے اندر صحیح دینی شعور پیدا ہوگا اور وہ بدعات وخرافات سے ضرور بچےگا اور ہر نئے کام پر کتاب وسنت سے دلیل ڈھونڈےگا۔ اس لیے میرے بھا ئیو! دین کا صحیح علم حاصل کرو اور اپنی اولاد کو بھی دین کا ضروری علم سکھاؤ۔

دوسری چیز، جو لوگوں کو حق سے منحرف کرتی اور بدعات وخرافات میں مبتلا کرتی ہے، وہ اپنے آباء واجداد کے رسوم ورواج کی تقلید اور اپنے بزرگوں سے بےجاعقیدت ومحبت اور اپنے علماء اور ائمہ کے لیے تعصب اور ہٹ دھرمی اور ان کی بےجا طرفداری ہے۔ انہی چیزوں کی وجہ سے ایک انسان کتاب وسنت کے نصوص کی تأویلیں کرتا ہے۔ اسے ان کی محبت وعقیدت اندھا کردیتی ہے۔ جس طریقے پر وہ چلتے ہیں وہی انہیں اچھا لگنے لگتا ہے، خواہ وہ کتاب وسنت کے صریح مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ مشہور صحابی حضرت معاذ بن جبل اپنے شاگرد یزید بن عمیرہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

“إیاکم وما یبتدع فإن ما ابتدع ضلالۃ، وأحذرکم زیغۃ الحکیم، فإن الشیطان قد یقول کلمۃ الضلالۃ علی لسان الحکیم، وقد یقول المنافق کلمۃ الحق، قال: قلت: لمعاذ ما یدرینی رحمک اللہ؟ إن الحکیم قد یقول کلمۃ الضلالۃ وان المنافق قد یقول کلمۃ الحق، قال: بلی اجتنب من کلام الحکیم المشتھرات التی یقال لھا: ما ھذہ؟ ولا یثنیک ذلک عنہ، فإنہ لعلہ أن یراجع وتلق الحق إذا سمعتہ فإن علی الحق نورا” (أبو داود، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ:4611)

“ دین میں جو نئی چیز نکالی جائے تم اس سے بچو، اس لیے کہ ہر نئی چیز جو (دین کے نام پر) نکالی جائے، گمراہی ہے۔ اور میں تمہیں حکیم ودانا کی گمراہی سے بھی ڈراتا ہوں۔ اس لیے کہ شیطان حکیم ودانا کی زبان سے گمراہی کی بات نکلواتا ہے اور کبھی کبھی منافق بھی حق بات کہتا ہے۔ ان کے شاگرد یزید بن عمیرہ کہتے ہیں: میں نے معاذ بن جبل سے کہا:اللہ آپ پر رحم کرے، مجھے کیسے معلوم ہوگا کہ حکیم ودانا گمراہی کی بات کہتا ہے اور منافق حق بات؟ وہ بولے کیوں نہیں، حکیم ودانا کی ان مشہور باتوں سے بچو جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہو، یہ یوں نہیں ہیں۔ لیکن یہ چیزیں تمہیں خود اس حکیم سے نہ پھیر دیں۔ اس لیے کہ امکان ہے کہ وہ اپنی اس بات سے پھر جائے اور جب تم حق بات سنو تو اسے لے لو۔ اس لیے کہ حق میں ایک نور ہوتا ہے۔”

اس حدیث میں معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے باطل کی نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ قرآن وسنت میں نہ ہو اور عقل سلیم بھی اس کو قبول نہ کرے۔ آپ نے عالم کے فتنے سے بھی لوگوں کو ڈرایا۔ کیونکہ عالم کا فتنہ بڑا سخت ہوتا ہے۔ وہ جھو ٹی باتوں پر غلط استدلال اور چرب زبانی سے عوام کو فریفتہ کرلیتا ہے۔ آج یہی حال لوگوں کا ہے۔ باطل پرست اور بدعات کے خوگر قرآن وسنت سے الگ ہٹ کر نئی نئی بدعات میں عوام کو پھنسائے ہوئے ہیں اور لوگوں نے اپنے عالموں اور بزرگوں کے ایجاد کیے ہوئے کاموں کو دین اور اسلام کا نام دے رکھا ہے۔ اور اس کے لیے قرآن وحدیث کے واضح نصوص کی غلط تأویلیں کرتے ہیں اور انہیں ایسے ایسے معانی پہنا تے ہیں جو سلف کے وہم وگمان میں بھی کبھی نہیں آئے تھے۔ حق کی جستجو کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ قرآن وحدیث میں حق کو تلاش کریں۔ خواہشات کی پیروی کرنے والے لوگوں سے اور ان علمائے سوء سے دور رہیں جو دین میں نئی چیزیں نکال کر بدعات ومحدثات کو فروغ دیتے ہیں۔

مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بڑی آفت اہل الاہواء(خواہشات پرست) ہیں۔ یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت کا ذکر کرکے، جاہل عوام کو اپنے دامِ فریب میں پھنسا تے ہیں اور پھر انہیں ہلاکت وبربادی کے کھڈ میں گرا دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی مثال اس شخص کی ہےجو شہد کے نام پر لوگوں کو زہر پلا رہا ہو۔

شیطان کا یہ قدیم حربہ ہے کہ وہ لوگوں کوحق اور سنت کی راہ سے پھیرنے کے لیے اپنی راہ کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اور لوگوں کو یہ باور کراتاہے کہ تمہارے باپ، دادا بزرگ اور علماء جو کچھ کرتے آئےوہی صحیح اور درست ہے۔ اور کتاب وسنت کے جو نصوص اس کے خلاف ہیں ان کے یہ معنی نہیں۔ بلکہ ان کےصحیح معنی یہ ہیں۔

اس طرح وہ کتاب وسنت کے نصوص کی نئی نئی تاویلات اور معانی سجھاتا رہتا ہے۔ اس لیے میرے بھا ئیو! بدعات کے مفاسد اورمضرات سے ہمیں ہوشیار اور چوکنا رہنا چاہئے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی صحیح دین سے محروم ہو جاتا ہے اوروہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ دین ناقص ہے اور قرآن وسنت میں کمیاں ہیں جنہیں ان بدعات سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ وہ دین میں بدعات ایجاد کرنے لگ جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہےکہ وہ سنتوں سے بےرغبت ہو جاتا ہے اور اس کے متعلق اس کی ہمتیں جواب دینے لگتی ہیں اور اس کی سرگرمیاں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ بلکہ اس کے اندر سنتوں سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ جب اسے کسی سنت پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ اسے ماننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور اپنی بدعات کی مدافعت میں دلیلیں ڈھونڈنے لگتا ہے۔

اس لیےصحیح العقیدہ اور صحیح الفکر علماء اور خطباء کا فرض بنتا ہے کہ وہ علمائے سوء کی ان مکاریوں اور فریب کاریوں کا پردہ قرآن وسنت کے دلائل سے چاک کرتے رہیں۔ اورصحیح دین سے لوگوں کو آگاہ کرتےرہیں۔ اوراس پر عمل پیرا رہنے کی ترغیب دیتے رہیں۔ صحابہ کرام لوگوں کو بدعات سے حددرجہ ڈراتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کے بارے میں آتا ہے کہ انہیں یہ خبر ملی کہ عمروبن عتبہ اور اس کے ساتھیوں نے کوفہ میں کوئی مسجد بنوائی ہے جس میں وہ بدعات ومحدثات کو فروغ دے رہے ہیں۔ تو انہوں نے جاکر اس مسجد کو منہدم کروا دیا۔ اس کے بعد انہیں معلوم ہو ا کہ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے ہیں اور مسجد کے ایک گوشے میں جمع ہو کر اجتماعی طورپر “سبحان اللہ، لا إلہ إلا اللہ” کا ورد کرتے ہیں ۔ تو وہ کپڑے سے اپنا چہرہ چھپا کر ان کی مجلس میں تشریف لے گئے تاکہ صحیح صورت حال کا پتہ لگائیں۔ جب انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور ان کی باتیں سن لیں تو اپنے چہرہ سے کپڑا ہٹا کر بولے: سنو! میں ابو عبد الرحمن ہوں۔ کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے دین کے زیادہ جانکار ہوگئے ہو؟ یا تم کوئی بدعت لے کرآئے ہو؟ اس پر عمر وبن عتبہ نے تین بار “استغفر اللہ” کہا۔ اس کے بعد اس کی مجلس میں سے ایک شخص نے کہا: نہ تو ہم علم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے افضل ہیں اور نہ ہی ہم کوئی بدعت کا کام کررہے ہیں۔ ہم تو اللہ کا ذکر کررہے ہیں۔ اس پر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیوں نہیں ضرور! ان دونوں میں سے کوئی بات ہے۔اگر تم صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلوگے تو ہدایت میں آگے بڑھو گے۔ اور اگر تم دائيں بائیں مڑگئے تو کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہو جاؤگے۔

دیکھا آپ نے صحابۂ کرام کے طریقے کے خلاف “سبحان اللہ”اور”لا إلہ إلا اللہ” کے ورد کو بھی انہوں نے گوارا نہیں کیا اور اس پر ان کی سرزنش کی۔ اس لیے میرے بھائیو ! کتاب وسنت اور صحابہ کرام کے نقش قدم کو لازم پکڑو۔ اور بدعات سے کنارہ کش رہنے اورصحیح دین پر چلنے کی اللہ سے توفیق مانگتے رہو۔ اور یہ جان لوکہ ہدایت اور گمراہی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے ۔

اَخیر میں دعا ہے کہ اللہ ہمیں صحیح دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اہل بدعات کی دین میں نکالی ہوئی نئی چیزوں سے ہمیں محفوظ رکھے، آمین۔